دیہی ترقی ایف اےکورس کوڈ 305سمسٹر بہار 2024
سوال 1: حکمت عملی سے کیا مراد ہے؟ کاشتکاروں کی پیداواری صلاحیتیں بڑھانے کیلئے حکومت کو کیااقدامات اٹھانے چاہئیں؟
جواب حکمت عملی کی تعریف :
حکمت عملی سے مراد وہ منصوبہ بندی اور طریقہ کار ہے جسے کسی مقصد کے حصول کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔ یہ ایک جامع منصوبہ ہوتا ہے جو مختلف عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ حکمت عملی میں مختلف اقدامات، وسائل کا استعمال، اور ممکنہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تدابیر شامل ہوتی ہیں۔
کاشتکاروں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے حکومت کو مختلف اقدامات اٹھانے چاہئیں، جن میں شامل ہیں۔
وسیع زرعی رقبوں پر کاشت
دیہی ترقی کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ حکومت لوگوں کونجی طور پر زیادہ سے زیادہ زمین خریدنے کی اجازت دے دے تاکہ وہ و سیع فارموں پر کاشت کاری کر سکیں۔
فوائد
(1) وسیع رقبے کے فارموں پر جدید مشینری کا استعمال باآسانی ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر زمین کی چھوٹی چھوٹی ادھر ادھر بکھری ہوئی ایسی کھڑوں پر جو مختلف لوگوں کی ملکیت میں ہوں ٹریکٹر کا استعمال بڑا مشکل ہے ۔
(2) چونکہ کاشت جدید مشینی طریقوں سے وسیع پیمانے پر آتی ہے اس لئے ابتدائی سرمایہ لگانے کے بعد ہر سال فصل اگانے میں خرچہ مقابل کم آتا ہے۔
(3) پیداواری نتائج بہتر طریق پر حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
(4) کاشت کاروں کو مختلف ترغیبات دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ کہ وہ فلاں بیج استعمال کریں اور فلاں قسم کی کھاو استعمال کریں وغیرہ وغیرہ ۔
(5) چھوٹے کاشت کاروں کے مقابلے میں بڑے کاشت کاروں کو جدید طریقے اپنانے میں دیر نہیں لگتی۔
(6) حکومت کی اس پالیسی سے کاشت کاروں کو ایسی زرعی اصلاحات کا خوف نہیں رہتا جن سے ان کی زمین چھن جائے۔
(7) ایسے لوگ جو اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی بڑی بڑی زمینیں خرید سکیں انہیں ان فارموں پر روزگار مہیا ہو جاتا ہے۔
رضا کارانہ اشتراک:
بعض ممالک میں اس بات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ملحقہ زرعی زمینوں کے کا شتکار رضا کارانہ طور پر اپنی زمینوں کو ملا کر اس ایک وسیع رقبے کے فارم کی شکل میں کاشت کریں ۔ اس حکمت عملی کا دوسرے فائدوں کے علاوہ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سب مل جل کر مختلف قسم کی جدید مشینری خرید سکتے ہیں اور اسے بچت کے ساتھ استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ اس سٹم میں ہر ایک کی اپنی اپنی زمین کے مالکانہ حقوق برقرار رہتے ہیں جبکہ کچھ کوزمین کی کاشت کا کام دے دیا جاتا ہے۔
ذمہ داریاں :
کاشتکاروں کو دیہی ترقی کیلئے برابر کا ذمہ دار بنانے کے مقصد کی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ چھوٹے کسانوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ : 3 اپی میں انی پیداوار میں اضافہ کریں اوران امیدوں پر پورا اتریں جو حکومت اپنی کوششوں کے صلے میں ان سے رکھتی ہے۔ جس طرح حکومت کیلئے کسانوں کی غربت دور کرنا اہم ہے اسی طرح کہ سانوں کا بھی فرض ہے پیداوار میں اضافہ کریں۔
ضرورت :
اگر پروگرام کا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی آمدنی بڑھانا ہوتواس کیلئے حکومت او کا شہکار دونوں کوئی تمکے کا صحیح وقت پر صیح ترتیب کے ساتھ بڑی ذمہ داری سے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر کوئی کام صیح وقت پر نہ کیا گیا یاجو کام پہلے کرنا تھاوہ بعد میں ہوا اور جو بعد میں کرنا تھا وہ پہلے ہو گیا تو یوں سمجھئے کہ سارے کئے کرائے پر پانی پھر گیا۔ کسان کے ذمے کام پیداوار بڑھانے کیلئے پہلے تو زمین کو اچھی طرح تیار کرنا پڑتا ہے پھر بچوں کی ایسی اقسام کا ہونا ضروری ہے جو کیمیائی کھاد کی زیادتی برداشت کر لیں۔ ایک طرف اگر کیمیائی کھاد کا ستعمال کم کریں تو زمین کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا تو بیج خراب ہو جاتے ہیں ۔ اپنے آپ اگنے والی جڑی بوٹیوں اور اس بچھوں کو زمین میں گنے سے روکنے کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ پھر کیڑے مارادویات کوبھی مقدار میں من استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یادر ہے کہ صرف ان سب کاموں کے کرنے کی اپنی ایک ترتیب ہے بلکہ سال کے مختلف مہینے اوردن بھی مقرر ہیں۔
محکموں کا قیام
مندرجہ بالا حکمت عملی پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ حکومت مختلف محکموں اداروں اور تنظیموں کو قائم کرے اس کےلئے بھی مختلف حکمت عملیوں کو اپنا یا جا سکتا ہے۔
مرکزی تنظیم
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں اگر حکومت کا مقصد درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاشت کاروں کی آمدنیاں بڑھاتا ہے تو پھر دوچیزوں پر زور دیتا ہو گا۔
کھیت میں استعمال ہونے والی اشیاء جن میں بیچ کیمیائی کھاد کیڑے مار ادویات اور مشینری شامل ہے ان کا بروقت اورصحیح استعمال ۔
صحیح وقت اور موقع پر ان اشیاء کی فراہمی۔
سوال 2: چھوٹے رقبوں پر کاشتکاری کرنے سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ اس حکمت عملی کو موثر بنانے کیلئے کن حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے؟
جواب: چھوٹے رقبوں پر کاشتکاری کرنے کےفوائد
دیہی ترقی کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ صرف چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
فوائد:
1 جن ممالک میں زرعی زمین چھوٹے چھوٹے ملکیتی ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی ہواور جہاں کی نصف سے بھی زیادہ آبادی کا اختصر زراعت پر ہو وہاں اس کے سا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ مالک اپنے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان ممالک میں اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہے کہ یہی تو علاقوں میں پہلے سے رانج ملکتیوں ہی کی بنیاد پر زرعی ترقی کے پروگرام کو پائیدار بنایا جاسکتاہے اور شدید قسم کی تبدیلیاں نہیں کرنی پڑتیں۔
2 دیہی ترقی کی اس حکمت عملی سےاکثر دیہی آبادی استفادہ ہے۔
3 اس وقت دنیا میں بہت کی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کا شتکاروں کو مختلف اقسام کی ہوتیں مہیا کی جائیں تو انہی چھوٹے فارموں کی پیداواری شرح وسیع پیمانے کے فارموں سے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم ان کی پیداواری شرح کے برابر ضرور ہو سکتی ہے۔
ضروری اقدامات :
جہاں تک اس حکمت عملی کو کامیابی سے چلانے کا سوال ہے تو اس کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات لازمی ہیں۔
زرعی اصلاحات کا پروگرام :
ترقی پذیر ممالک میں گو کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں ایسے بڑے زمیندار بھی ہوتے ہیں جنہیں ہم غیر حاضر زمیندار کہتے ہیں یعنی وہ خود شہروں میں رہتے ہیں اور کاشت اپنے مزارعین سے کرواتے ہیں ۔ اب ضروری نہیں کہ ان اصلاحات کا مقصد ان کی بڑی بڑی زمینوں کو بے زمین کا شتکاروں میں بانٹنا ہو۔ ان زرعی اصلاحات کا مقصد دراصل بہت سے ممالک میں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں خاص طور پر جب بڑے ڈیم تعمیر ہوں اور یہ علاقے سیراب ہو جائیں تو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی زمینیں کہیں انہی غیر حاضر زمینداروں کے ہاتھوں میں نہ چلی جائیں ۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ زرعی اصلاحات کے پروگرام میں امداد با ہمی کا ایک مؤثر پروگرام بھی شامل ہو ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے پیداوار میں اضافہ ان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا شتکاروں کی حالت بہترویسی رہے۔ اس حکمت عملی کو اپنانے سے حکومت کو نہ صرف کئی محکمے قائم کرنا پڑتے ہیں بلکہ مختلف قسم کے تحقیقاتی کاموں اور شار یاتی جائزوں کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے ۔ کسانوں کو مختلف لوازمات مثلاً عمدہ بیج اور کھاد وغیرہ بھی سستے داموں فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں قرضے دینے کیلئے پیسہ درکار ہوتا ہے۔ بعض ممالک میں ایسی حکمت عملی کے تحت حکومت نے کہ کسانوں کو مارکیٹنگ اور فصلوں کو سٹور کرنے کی سہولتیں بھی فراہم کی ہیں۔
لازمی شرائط:حکومت کو کچھ انتظامی اقدامات کرنے پڑیں گے
حکومت یہ قید لگا سکتی ہے کہ کاشتکار اپنی زمین کسی اور کومنتقل نہیں کر سکتے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں بھی حکومت نے چھوٹے کا شتکاروں کی حالت بہتر بنانے کیلئے علاقے میں پانی، بجلی اور دیگر سہولتیں فراہم کیں بڑے زمینداروں نے مستقبل میں علاقے کی متوقع خوشحالی کے باعث یہ زمین خرید لی۔
کاشتکار اپنی زمین یا فصل قرضے کے حصول کیلئے گروی نہیں رکھ سکتے ۔
حکومت یہ شرط بھی عائد کرسکتی ہے کہ کاشتکار حکومت سے لیا گیا قرضہ صرف زراعت سے مقالہ ایسے کاموں پر خرچ کریں جن کیلئے حکومت ان کو ہدایات دے۔
بعض ممالک میں کاشتکار صرف اس صورت میں حکومت سے قرضہ لے سکتے ہیں جب لازمی طور پر اپنی فصل حکومت ہی کو فروخت کریں۔
ایک شرط یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کاشتکار اپنی زمینوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کو ملا کر اس طرح کاشت کریں جیسے یہ ایک وسیع زرعی فارم ہو۔
ایک شرط یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کاشت کاراپنی زمین خود کاشت کریں۔
یہ بھی ہوسکتا ہےکہ حکومت کا شتکاروں کیلے یہ لازمی قرار دے دے کہ وہ اما با بی کی انجمنوںکے مبر نہیں اس سے فیصلے اجتماعی طور پر ہوتے ہیں اورمل جل کر کام کرنے کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
یہ بھی ہوسکتا ہےکہ کاشتکاروں کومجبورکیا جائے کہ کوئی خاص فصل لازمی آ گائیں مختلف موسموں میں سب کےسب ایک طرح کی فصل اگائیں۔اس سے یقینا پانی مشینری اور ادویات وغیرہ کی بچت ہوتی ہے۔
سوال 3: فرسودہ رسوم و رواج کی بندشوں اور زرعی آمد و رفت و مواصلات کی کمی کے باعث پاکستانی کاشتکاروں کو کیا مسائل درپیش ہیں؟
جواب: زرعی اجناس کی قیمتوں پر اثر :
سڑکیں اورسڑکوں نقل حمل دیہاتی آبادیوں کوایک دوسرے سےملانے ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کوشروع کرنے کے گھر یلو منڈیوں کو وسیع کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ دہی ترقی کیلئے نہ صرف ایسے ذرائع جن پر اعتماد کیا جاسکے بلکہ یہ بھی کہ ان کے استعمال پر خر چہ بھی کم آئے بہت ضروری ہیں ۔
آمدنیوں میں اضافہ :
اگر دیہی ترقی کا مقصد چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاشتکاروں کی آمدنیوں میں اضافہ ہے تو پھر حکومت اور کاشتکار دونوں کو مختلف قسم کے کام صیح ترتیب کے ساتھ ادا کرنے ہوں گے۔ کاشتکاروں کو وقت پر بیج کھاد اور دیگر ادویات کی فراہمی سے لے کر ان کی کائی ہوئی فصل کو منڈیوں تک لے جانے کیلئے ذرائع آمد ورفت کے مؤثر نظام کی بہت اہمیت ہے۔ کچے راستے جن پر بارشوں میں گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور جن پر چلنے والی بیل گاڑیاں ہماری دیہی زندگی کی پہچان ہیں ہماری زرعی پیداوار کی قیمتوں میں کمی بیشی کی ایک بڑی وجہ سمجھی جاسکتی ہیں ۔ جب ہم اپنے نقل وحصل کے ذرائع کا مقابلہ دوسرے ممالک سے کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے 90 فیصد سے بھی زیادہ دیہات ایسے ہیں جہاں ایسی سڑکیں موجود نہیں جو ہر موسم کیلئے کارآمد ہوں ۔
دیگر ممالک میں ذرائع نقل و حمل:
برطانیہ فرانس، جاپان اور امریکہ جیسے ممالک میں زیر کاشت علاقے اور سڑکوں کی لمبائی کی نسبت 1 سے 4 کی ہے یعنی اوسطاً ایک مربع میل علاقے میں کم از کم 4 میل سڑک موجود ہے۔ ملائیشیا، ڈنمارک، فلپائن میں یہ نسبت 1 اور 3 کی ہے۔ پاکستان میں 1 اور 1/4 اگلے صفحے پر دیئے گئے جدول میں پاکستان کا دوسرے ممالک سے ان کی آبادی رقبے کچی اور پکی سڑکوں کی لمبائی کے اعتبار سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اس جدول میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ان ممالک میں ایک لاکھ آبادی کے حصے میں اوسطاً کتنے میل سڑک آتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی 75 فیصد آبادی دیہی آبادی ہے۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ تمام کچی سڑکیں ہمارے دیہی علاقوں میں موجود ہیں تو کیا آپ اس جدول کی مدد سے پاکستان میں کچی سڑکوں کی لمبائی فی لاکھ آبادی کے حساب سے نکال سکتے ہیں؟
سوال 4 : اداری کونسل سے کیامراد ہے؟ نیز یونین کونسل اورصوبائی مشاورتی کونسل پر مختصر نوٹ تحریر کریں۔
جواب: اداری کونسلیں :
سب سے پہلے ان اداروں تنظیموں کو قائم کیا گیا جو دیہاتوں کی ملی سطحوں کو اعلیٰ انتظامی سطحوں سے مختلف درمیانی سطحوں کے ذریعے ملاتی تھیں ۔ چنانچہ بنیادی جمہوریت کے نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ ایک پانچ سبھی نظام کے تحت شروع کیا گیا:
1 یونین کونسل
2 ڈویژنل کونسل
3 تحصیل کونسل
4 صوبائی مشاورتی کونسل
5 ڈسٹرکٹ کونسل
یونین کونسل :
ایک یونین کونسل اگر چہ سب سے نچلی سطح کی اداری تنظیم تھی لیکن اس کے کچھ بہت ہی اہم پہلو تھے۔ یونین کی سطح پر اس کی جداگانہ حیثیت ہے اس لحاظ سے تھی کہ اس کے تمام کے تمام ممبران منتخب تھے۔ چنانچہ یہ عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کی ایک سب سے واضح کڑی تھی ۔ تقریباً 000ء10 کی و آبادی سے 10 افراد منتخب کئے جاتے ۔ 5 افراد کا انتخاب حکومت کرتی۔ اس طرح 15 افراد پر مشتمل یہ کونسل وجود میں آتی ۔5 افراد کے انتخاب کا اختیارڈ پی کمشن کو و حاصل تھا۔ شہروں میں ٹاؤن اور یونین کمیٹیاں یو نین کونسلوں ہی کی طرح قائم کی گئیں۔ یہاں چھ افراد کے انتخاب کا اختیار کمشنر کو دیا گیا۔ ممبران 5 سال تک کام کرتے لیکن انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر اجلاسوں سے لگا تار غیر حاضری، حکومت کی ملازمت اختیار کرنے یا پیسے کی خرد برد وغیرہ کا لعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر ایسے ممبروں کو جنہیں چنا گیا تھا کا لعدم قرار دے سکتا تھا جبکہ منتخب افراد کوکالعدم قرار دینے کا طریقہ یہ تھا کہ اوپر والی کونسل یعنی تحصیل کونسل میں اس کیلئےاکثریتی ووٹ حاصل کئے جاتے۔
صوبائی مشاورتی کونسل :
اگر چہ صوبائی مشاورتی کونسل اس سلسلے کی اونچے سطح کی کونسل یہ دوسروں کی طرح انتظامیہ نہیں تھی بلکہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کی حیثیت مشاور تی تھی ۔
سوال 5: مندرجہ ذیل پر نوٹ لکھیں
(الف)دیہی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جواب: پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دو مراکز مان والا اور ٹیل ) میں کئے گئے ایک مطالعے کے بعد جو حقائق سامنے آئے وہ یہ تھے۔
1 ان مراکز میں مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام نے شروع شروع میں لوگوں کو گاؤں کی سطح پر امداد باہمی کی تنظیمیں بنانے کی طرف اکسایا۔
2 یہ پروگرام حکومت کی ایک مربوط ایجنسی کے طور پر کام نہ کر سکا کیونکہ اسے دوسرے محکموں کی مدد نہ مل سکی۔
3 عام طور پر کاشتکاروں کی پیداوار میں اضافہ پروگرام کے آغاز سے پہلے ہی ہونا شروع ہو گیا تھا اس لئے اسے پروگرام کی کامیابی کی ایک کسوٹی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
4 حکومتی سہولتوں کی فراہمی حکومت کے مختلف محکموں کی اپنی کوششوں کے نتیجے میں عمل میں آتی ہے۔ لوگ کس حد تک ان سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا دار و مدارلوگوں کی اپنی دلچسپی پر ہے نہ کہ مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام پر ۔
5 پروگرام لوگوں کو تر قیاتی کاموں میں شامل نہ کر سکا۔
6 مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام صرف سفید پوشوں یعنی وہ جو مقابلتا کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ تھے ) کو اپنی طرف راغب کر سکا۔
7 اس کے فوائد زیادہ تر درمیانے اور اونچے درجے کے لوگوں تک پہنچ سکے۔
8 پروگرام کے غیر مؤثر ہونے کی بڑی وجہ ذرائع کی کمی ور مقامی سطح پر مناسب منصو بہ بندی کا فقدان تھا۔
(ب) دیہی ترقی میں امداد با ہمی کا کردار :
جواب: امداد باہمی:
پاکستان میں طرح طرح کی امداد باہمی کی انجمنیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ان تنظیموں کا مطلب لوگوں کا محض اکٹھے ہوکر رسمی طور پرمل جل کر کسی بھی قسم کا کوئی کام کرنا ہے۔ کام مختلف نوعیت کےہو سکتے ہیں مثلا اخلاق سدھارنے کا کام ،فلمیں بنانے یا کچھ دوسرے اس طرح کے کام وغیرہ تاہم دوسری رسمی قسم کی نظمیں جن میں ہر طرح کے کلب مزدوروں کی مختلف ہوئیں اور شراکتیں وغیرہ اس میں کو آپریٹو کے نام درجہ نہیں کیا جاتا حالانکہ وہاں بھی لوگ رسمی طور پر مل جل کر کام کرتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ امداد باہمی کے اداروں کو معاشرے کی ہر طرح کی معاشی اور سماجی برائی کاحل سمجھ لیا گیا ہے۔
امداد باہمی کی انجمنوں کے فرائض :
جس طرح حکومت سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے مختلف مسائل کو حل کرے گی اسی طرح ان امداد با بھی کی انجمنوں کو اسی نوعیت کے فرائض سونپ دیئے گئے ہیں مثلاً اشیا کی کمی کے دوران ان انجمنوں کو آئے، چینی، کپڑے روئی ریشم کے دھاگوں اور کیمیائی کھاد کو تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اگر سوال کا شتکاروں کو جدید طریقوں کی تعلیم دینے کا تھا تب بھی امداد باہمی کی انجمنوں سے کام لیا گیا ۔ اگر مسئلہ بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی ملکیتی زمینوں کو اکٹھا کرنے کا تھایا مہاجرین کی آبادکاری کا یا زرعی ترقی کا امداد باہمی کی انجمنوں ہی کا نام ان کاموں کیلئے ہمیشہ لیا گیا اور پھر شاید ہی حکومت کا کوئی ایسا خود مختارتر قیاتی ادارہ ہو جس کے مقاصد میں ان امداد باہمی کی انجمنوں کو فروغ دینے کا مقصد شامل نہ ہو۔
امداد باہمی کے غلط تصورسےمتعلقہ غلط باتوں کی تلفی:
اعدادیہ اس کے اس غلط تصور نےراتوں رات کی مکی امداد باہی کی انجمنوں کوجنم دیا اور پھرای طرح وہ راتوں رات اپنے اختتام کو پہنچیں ۔ اس لئے یہ بڑا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس تصور سے متعلقہ ان لوگوں کے ذہنوں سے غلط باتیں دور کی جائیں جوان انجمنوں کی تعمیر اور فروغ کے ذمہ دار ہیں۔
1۔ امداد باہمی کی انجمنیں زراعت کو فروغ دینے کیلئے قائم نہیں کی جاتیں بلکہ زرعی ترقی میں ان کی حیثیت ایک مددگار کی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے کے مخصوص حالات ہی میں امداد باہمی کی یہ انجمنیں فروغ پاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرضے کی فراہمی کیلئے بنائی گئی امداد با ہمی کی انجمنیں پسماندہ علاقوں میں تو قائم ہوسکیں جبکہ ہر دوسری جگہ نا کام ہو گئیں ۔
2۔ امداد باہمی کی انجمنیں لازمی طور پر تجارتی تنظیمیں ہوا کرتی ہیں اور انہیں خاص قسم کے معاشی کام کرنے پڑتے ہیں۔ ان کاموں کی قسم عام طور پر ایسی ہوتی ہے جن سے کاشتکاروں کی براہ راست پیداوار کو بڑھایا جا سکے ان کے پیداواری اخراجات کوکم کیا جاسکے۔ ان کے ذمے تر قیاتی یا سماجی قسم کے کام نہیں ہوتے اس کے علاوہ امداد باہمی کی انجمنوں کے کاموں کی نوعیت مستقل ہوتی ہے۔
-3 امداد با ای کا فروغ قدرتی طور پر ایک برای ست رفتاری کا کام ہے اس لئے ان انجمنوں کو بنانے کے بڑے بڑے منصو بے حقیقی طور پران انجمنوں کوراتوں رات وجود میں نہیں لا سکتے۔
4۔ اس بات پر یقین کرنا غلط ہوگا کہ کسی گاؤں میں کا شتکار سارے کے سارے رضا کارانہ طور پر آسانی سے ان تنظیموں کے ممبر بنائے جاسکتے ہیں۔ بہت مکن ہے کہ کچھ کاشتکار ان انجمنوں کو قبول ہی نہ کریں جب کہ دوسری طرف ایک ہی گاؤں میں دو انجمنیں بنانے کا موقع بھی موجود ہو۔ حقیقت میں اس بات کا انحصار کہ کی جگہ امداد باہمی کی کتنی انجمنیں ہونی چاہئیں اس پر ہے کہ وہاں ایسے کتنے گروہ ہیں جنہیں قدرتی طور پر اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
5۔ یہ بھی بالکل اس طرح اک غلط بات ہوئی کہ ہم یہ یقین کریں کہ امداد با ہمی کی یا انہیں اگر ایک وجہ وجود میں آگئیں تو کامیاب ہوجائیں گی تو تجارتی تنظیمیں ہوتی ہیں اور بالکل دوسری تجارتی کمپنیوں کی طرح ان میں سے کچھ کامیاب ہوں اور پے نا کام جونا کام ہوجائیں ان کی ناکام کوقبول کیاجانا چاہیے اور ان کے اثاثوں کا ویسے ہی حساب کتاب ہونا چاہیے جیسے تجارتی لین دین میں ہوتا ہے۔
-6 اسطرح اپیلیں کہ کاشتکار امداد باہمی کی تنظیم کے وفادار رہیں اور ان لوگوں کا ہے اور ان کا نہ ہی کر رہا ہے کاشتکاروں کی کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ وہ تو اس صورت میں انہیں قبول کرتے ہیں جب یہ ان کیلئے حقیقی معنوں میں فائدہ مند ہوں۔ اس سلسلے میں جذباتی نوعیت کی ترغیبات یا نظریاتی ہیں ہیں ان میں انہیں یہ بات کی اد ا کے پیا کے بارے میں ہی کی جاتی ہے یا اواتار رہا ہے اس وقت کام کرے یا جان انہیں اپنے کام کا مناسب معاوضہ ملے اور جب ان کے کام کی نگرانی کی جائے۔
امداد باہمی کی انجمن کے قیام کیلئے ضروری ہدایات :
اس بات کی سفارش کی جاتی ہے کہ کسی امداد باہمی کی انجمن کا قیام اس وقت عمل میں لایا جائے جب معاشی لحاظ سے ایسا کرنا سودمند ہو امداد باہمی کی انجن بنانےکیلئے غیر رسمی حدف مقرر نہیں ہونے چاہئیں اور جہاں تک ممکن ہوامداد باہمی کی انجمن بنانے کیلئے غیر رسمی اداروں کو رسمی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ امداد باہمی تنظیموں میں لوگوں کو شامل کرتے وقت گاؤں میں آباد مختلف گروہ بندیوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ اس لئے اس کام کی کامیابی کیلئے قدرتی طور پر پہلے سے بنے ہوئے گروہوں کی شناخت ضروری ہو جاتی ہے لہذا اگر کسی گاؤں میں دو امداد باہمی کی انجمنوں کا قیام آسانی سے عمل میں لایا جا سکے تو توسیعی کارکنوںکو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ وہاں صرف ایک انجمن بنا ئیں ۔ جب امداد باہی کی کوئی انجمن کام نہ کر سکے تو اسے توڑنے میں کسی قسم کی کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ امداد باہمی کی تنظیموں کیلئے گاؤں گاؤں یہ پرو پیگنڈ نہیں کرنا چاہیے کہ امدادیہ بھی ایک نظریہ ہے یا ایک فلسفہ ہے بلکہ اسے ضرورت مند کا شتکاروں کی معاشی ضرورتوں کا ایک حل کہہ کے پیش کرنا چاہیے۔“
0 Comments