A dialogue on inflation between the shopkeeper and the buyer


 دوکانداراورخریدار کے درمیان مہنگائی پرمکالمہ

گاہک: اسلام علیکم!
دوکان دار: وعلیکم السلام! خوش آمدید آپ کی کیا خدمت کروں؟

گاہک: ! بہت شکریہ! میں آپ کی دوکان میں آیا ہوں تاکہ میں کچھ خریداری کروں۔

دوکان دار: بے شک! آپ ہمارے پاس ہر قسم کی چیزیں پا سکتے ہیں۔ آپ کو کیا درکار ہے؟

گاہک: مجھے یہ لیپ ٹاپ دیکھ کر دلچسپی ہوئی۔ کیا آپ مجھے اس کی قیمت بتا سکتے ہیں؟

دوکان دار: بالکل، یہ لیپ ٹاپ کی قیمت پانچ تھی ۔۔۔ لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے قیمت گزر چکی ہے اور اب اس کی نئی قیمت چھ ہزار روپے ہوگئی ہے۔

گاہک: واہ، مہنگائی کی وجہ سے قیمت میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے؟ کیا آپ مجھے اس پر کچھ چھوٹ مل سکتا ہے؟

دوکان دار: معاف کیجیے، میری کاروباری پالیسی کی روشنی میں، اس وقت کوئی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔

گاہک: سمجھا، لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ میں آپ کی دوکان کا مستقبل بناوں اور آپ کو بار بار آکر خریداری کروں؟

دوکان دار: بالکل، آپکی بات میں بہت دلچسپی ہے۔ لیکن اس وقت میں قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

گاہک: مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ۔

دوکان دار: ہاں، معاشرت میں مہنگائی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کرنسی کی قدر کمی اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، سب کچھ مشتریوں کو متاثر کرتا ہے۔

گاہک: بالکل، میں نے خبریں دیکھی ہیں کہ معیشت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کچھ مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

دوکان دار: جی ہاں، خواہش ہے کہ دوسری مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ نہ آئے، لیکن اس وقت یہ بہت ممکن نہیں لگتا۔

گاہک: بالکل، میں بھی اپنی خریداری کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میرا بجٹ متاثر نہ ہو۔

دوکان دار: بہترین بات ہے کہ آپ اپنے بجٹ کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ہمارابھی یہی خیال ہے کہ آپ کی خریداری آپ کے بجٹ کے مطابق ہو۔

گاہک: میں آپ کی بات سےمتفق ہوں بجٹ کا خیال رکھنا بہت اہم ہے، خاص طور پر اس وقت جب مہنگائی کی شدت بڑھ رہی ہے۔

دوکان دار: بالکل، آپ کا شکریہ کہ آپ نے میرے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی۔ کیا میں آپ کی کسی اور مدد کر سکتا ہوں؟

گاہک: نہیں، بہت شکریہ۔ خدا حافظ!

دونوں: خدا حافظ!

 مہنگائی پر دوکاندار اور خریدار کے درمیان دوسرا مکالمہ 

خریدار: اسلام علیکم! کیسے ہیں آپ؟

دوکاندار: وعلیکم اسلام! میں ٹھیک ہوں۔ کیا چیز چاہیے آپ کو آج؟

خریدار: بھئی، کچھ سبزیاں اور پھل لینے آیا ہوں، لیکن آپ کے دام بہت زیادہ لگ رہے ہیں۔

دوکاندار: جی ہاں، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ لیکن کیا کریں، مارکیٹ میں سب چیزوں کے دام بڑھ گئے ہیں۔ ہمیں بھی مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔

خریدار: لیکن بھائی، ہر دفعہ تو یہ سننے کو ملتا ہے۔ آخر کب تک ہم لوگ مہنگائی کا سامنا کرتے رہیں گے؟

دوکاندار: یہ بات بالکل درست ہے۔ مہنگائی نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی اور دیگر چیزوں کے دام بھی بڑھ رہے ہیں، جس کا اثر سب پر پڑتا ہے۔

خریدار: حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ غریب لوگ کیسے گزارا کریں گے؟ ہمارے بجٹ میں تو اضافہ نہیں ہوتا، لیکن خرچے بڑھتے جا رہے ہیں۔

دوکاندار: بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔ ہم جیسے چھوٹے دوکاندار بھی مشکل میں ہیں۔ گاہک کم ہو گئے ہیں، اور جو آتے ہیں وہ بھی کم خریدتے ہیں۔

خریدار: اچھا، یہ بتائیں کہ آج کے دام کیا ہیں؟ میں کچھ آلو، ٹماٹر اور پیاز لینا چاہتا ہوں۔

دوکاندار: جی، آلو 50 روپے کلو، ٹماٹر 70 روپے کلو، اور پیاز 60 روپے کلو ہیں۔

خریدار: اللہ رحم کرے! یہ دام سن کر تو جی چاہتا ہے کہ سبزی چھوڑ کر کہیں جنگل میں چلے جائیں۔ خیر، تھوڑا کم کر دیں، میں روزانہ کا گاہک ہوں۔

دوکاندار: جی، آپ کے لیے تھوڑا رعایت کر دیتا ہوں۔ آلو 45 روپے کلو، ٹماٹر 65 روپے کلو، اور پیاز 55 روپے کلو دے دیتا ہوں۔

خریدار: ٹھیک ہے، اتنے داموں پر دے دیں۔ لیکن دعا کریں کہ یہ مہنگائی جلد ختم ہو ورنہ ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا۔

دوکاندار: جی، اللہ سب کی مدد کرے۔ آپ کے لیے سب کچھ تیار کر دیتا ہوں۔

خریدار: شکریہ بھائی! اللہ حافظ۔

دوکاندار: اللہ حافظ!

Post a Comment

0 Comments